موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار کون؟ مسئلے کو کون حل کرے گا؟ | Kurzgesagt

🎁Amazon Prime 📖Kindle Unlimited 🎧Audible Plus 🎵Amazon Music Unlimited 🌿iHerb 💰Binance

ویڈیو

ٹرانسکرپٹ

صنعتی انقلاب کے بعد سے، انسانوں نے

۱،۵ لاکھ کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ سیارہ کی کرۂ ہوا میں چھوڑیں ہیں۔

سال ۲۰۱۹ میں، ہم پھر بھی ۳۷۰۰ کروڑ زیادہ پمپ کر رہے تھے۔

وہ تقریباً سال ۲۰۰۰ سے ۵۰٪ زیادہ ہے اور ۵۰ سال پہلے سے تین گنا زیادہ۔

اور یہ صرف کاربن ڈائی آکسائڈ نہیں ہے۔

ہم بڑھتی ہوئی سطح میں اور بھی ہریاول گھر گیس چھوڑ رہے ہیں، جیسے میتھین اور نائٹرس آکسائڈ۔

اِن سب کو ملا کر، ہم ہر سال ۵۱۰۰ کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑ رہے ہیں۔

اور یہ بڑھتا ہو رہا ہے۔

لیکن وہ صفر ہونی چاہیے۔

حالیہ سالوں میں، نتائج زیادہ سنجیدہ ہو گئے ہیں اور ہم یہ دیکھ سکتے ہیں۔

تقریباً ہر سال کچھ نئی خوفناک سطح پہونچ لیتا ہے۔

لہر گرمی زیادہ ہو گئے ہیں، برف کے تودے پگھل رہے ہیں اور قطب شمالی پر سب سے کم برف محفوظ شدہ۔

پچھلے ۲۲ سال سے، ۲۰ سب سے گرم والے سالوں تھے۔

اِس جلد کی عالمی حرارت روکنے کیلئے صرف ایک طریقہ ہے: ہمارے اجتماعی اخراج کو جلد سے کم کرنا۔

لیکن ہر ملک اِس بات پر متفق ہونے کے باوجود بھی،

وہ اِس بار پر متفق نہیں ہے کہ کون ذمہ دار ہے یا کون سب سے بھاری وزن سنبھالنا چاہیے۔

ترقی یافتہ ملکوں اپنے آپ کے آلودگی کم کرنے کے کوششیں پر اثر ڈالتے ہیں،

اور یہ حقیقت کہ بڑے ترقی پذیر ملکوں جیسے چین

فی الحال زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑ رہے ہیں۔

دوسرے طرف پر ترقی پذیر ملکوں بحث کرتے ہیں کہ مغربی ملکوں کے اخراجات طرز زندگی کے اخراجات ہیں

جب کی ترقی پذیر ملکوں کیلئے وہ بقا کے اخراجات ہیں۔

دوسرے لوگ ترقی یافتہ ملکوں کو منافق کہتے ہیں، جو مزاحمت بغیر، آلودگی کر کے امیر ہو گئے

اور اب یہ توقع کرتے ہیں کہ دوسرے ملکوں صنعتی نہیں ہونی چاہیے اور غریب رہنا چاہیے۔

تو موسمیاتی بدلاؤ اور کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کیلئے کون ذمہ دار ہے؟

اور ماضی قطع نظر، آج سب سے زیادہ کون کرنا چاہیے؟

اِس ویڈیو میں، ہم صرف ملکوں کے بارے میں بات کریں گے۔

ہم کسی اور ویڈیو میں حفری ایندھن کو دیکھیں گے۔

پہلا سوال: آج کس ملک سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کرتا ہے؟

۲۰۱۷ میں، انسانوں نے تقریباً ۳۶۰۰ کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کی۔

۵۰٪ سے زیادہ ایشیا سے آیا۔ شمالی امریکہ اور یورپ سے ۱۸٪ اور ۱۷٪۔

جبکہ افریقہ، جنوبی امریکہ اور اوقیانوسیہ سے کل ملا کر صرف ۸٪ آیا۔

چین دنیا کی سب سے بڑی اخراجی ہے، ہر سال ۱۰۰۰ کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑ کر،

دنیا بھر کی اخراج سے ۲۷٪۔

اُس کے بعد ریاستہائے متحدہ ہے، ۱۵٪ کے ساتھ اور یورپی اتحاد، ۱۰٪ کے ساتھ۔

کل ملا کر، یہ دنیا کی آدھا کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج سے زیادہ ہے۔

تو صاف ہے کہ اِن تین صنعتی بلاکس کے خواہش اور عمل کے بغیر،

انسانیت کاربن غیر جانبدار نہیں ہو پائے گا اور شدید موسمیاتی بدلاؤ کو روک نہیں پاینگے۔

فہرست میں اگلے ہیں ہندوستان، ۷٪ پر، روس ۵٪ پر، جاپان ۳٪ پر،

اور ایران، سعودی عرب، جنوبی کوریا اور کینیڈا، سب ۲٪ کی تقریباً۔

اوپر ۳ کے ساتھ کل ملا کر، اوپر دس، دنیا کی ۷۵٪ اخراج کیلئے ذمہ دار ہیں۔

لیکن اگر ہم صرف حالیہ معلومات دیکھے تو پوری تصویر نہیں مل رہی ہے۔

دوسرا سوال: کن-کن ملکوں نے کل ملا کر سب سے زیادہ اخراج کی ہیں؟

اگر ہم تاریخ بھر سے آج تک کے اخراج دیکھتے ہیں، نقطہ نظر بہت الگ ہوتا ہے۔

ریاستہائے متحدہ اور یورپی اتحاد، دونوں چین کو اوپر سطح سے نکالتے ہیں۔

ریاستہائے متحد دنیا کی ۲۵٪ تاریخی اخراج کیلئے ذمہ دار ہے، ۴ لاکھ کروڑ ٹن چھوڑ کر،

زیادہ تر بیسویں صدی میں۔

دوسری سطح پر یورپی اتحاد ہے ۲۲٪ کے ساتھ۔

چین تیسری سطح پر آتی ہے، صرف ۱۳٪ سے کم، تقریباً ریاستہائے متحد کی شراکت سے آدھا۔

ہندوستان کی شراکت ۳٪ کو سکڑ جاتا ہے، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ساتھ۔

سلطنت متحد دنیا کی ۱٪ سالانہ اخراج کیلئے ذمہ دار ہے

مگر تاریخی اخراج میں ۵٪ لیتا ہے۔

جرمنی، ہر سال آج ۲٪ شراکت کر کے، تقریباً ۶٪ میں شراکت کیے ہیں،

جتنا افریقہ اور جنوبی امریکہ کل ملا کر کرتے ہیں۔

تو وضاحتی کہ تیز موسمیاتی بدلاؤ ترقی پذیر ملکوں کے ذمہ داری ہے،

دفاع کرنے میں مشکل ہے، اگر آپ کو حقائق کی اہمیت ہے۔

لیکن یہ پوری کہانی نہیں ہے، کیونکہ ملکوں پر نظر ڈالنے میں دو چیزیں ملا جاتے ہیں:

آبادی اعداد اور کل اخراج۔

اگر ایک ملک میں عام طور پر زیادہ لوگ ہے، اخراج زیادہ ہوں گے۔

چیزیں بہت الگ سے دکھا جاتا ہے اگر ہم انفرادی جیسے آپ کو دیکھتے ہیں، ناظرین۔

تیسرا سوال: کن-کن ملکوں فی شخص طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کرتے ہیں؟

اوسط انسان ہر سال تقریباً ۵ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کیلئے ذمہ دار ہے، لیکن اوسط گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کرنے والے ملکوں دنیا کے اہم تیل اور گیس کے ملکوں ہیں۔

۲۰۱۷ میں، قطر سب سے بڑی اخراجی تھی، ۴۹ ٹن فی شخص،

اُس کے بعد آیا ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، کویت، متحدہ عرب امارات، برونائی، بحرین اور سعودی عرب۔

لیکن وہ معاملے الگ ہیں۔

آسٹریلیا کی فی شخص کاربن ڈائی آکسائڈ نشان سب سے زیادہ میں سے ایک ہے: ۱۷ ٹن فی سال۔

وہ دنیا کی اوسط سے تین گنا زیادہ ہے

اور اوسط امریکی اور کینیڈین سے تھوڑا زیادہ، ۱۶ ٹن ہر۔

جرمن لوگ تھوڑا اور اچھے کرتے ہیں، تقریباً ۱۰ ٹن پر، لیکن یہ پھر بھی دنیا کی اوسط سے دوگنا زیادہ ہے۔

چین دنیا کی سب سے بڑی اخراج ہو سکتی ہے،

لیکن وہ دنیا کای سب سے بڑی آبادی والی ملک ہے، ۱۴۰ کروڑ لوگ سے زیادہ،

دنیا آبادی سے ۱۸،۵٪۔

فی شخص، وہ اوسط سے زیادہ ہے، ۷ ٹن پر۔

تاریخی طور پر، کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج بہت معیار زندگی سے متعلق تھے۔

دولت کاربن نشان کا سب سے طاقتی اشارہ ہے، کیونکہ جیسے ہم غریب سے امیر ہو جاتے ہیں،

ہمیں بجلی، حرارتی، ایئر کنڈیشنگ، روشنی، جدید پکانے کے طریقے،

گاڑیوں یا ہوائی جہاز، سمارٹ فون، کمپیوٹر اور دنیا بھر کے لوگ سے بات کرنا، آن لائن۔

چین کی کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کی تیز اضافہ تاریخ کا سب سے بڑا غریبی شرح کمی کے ساتھ متعلق ہے۔

اگر ہم آمدنی طور پر اخراج درجہ بندی کرتے ہیں،

ہم دیکھ سکتے ہے کہ سب سے امیر آدھا دنیا کی ۸۶٪ اخراج کیلئے ذمہ دار ہیں

اور نیچے آدھا، صرف ۱۴٪ کیلئے۔

اوسط جرمن ایک اوسط ہندوستانی سے پانچ گنا زیادہ اخراج کرتا ہے۔

صرف ۲،۳ دنوں میں، اوسط امریکی ایک اوسط نائجیریائی کی سال بھر اخراج کی سطح پہونچتا ہے۔

اور بس وہ بات نہیں ہے، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ

جن ملکوں تکلیف میں سب سے کم شراکت کرتے ہے، وہ جلد موسمیاتی بدلاؤ کی وجہ سے سب سے زیادہ کھونے والے ہیں۔

ترقی پذیر دنیا کو سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

نتائج کھانے کی عدم تحفظ، حوالہ جات پر لڑائی،

بدتر اور بار بار قدرتی آفت اور بڑے موسمیاتی مہاجر تحریکوں ہو سکتے ہیں۔

چوتھا سوال: کس کو ذمہ داری لینا ہے؟

آج کے بہت سارے امیر ملکوں ایک آسان جگہ پر ہے۔

وہ کئی صدیوں سے حفری ایندھن جلا کر اور صنعتی پیداوار سے امیر ہو گئے ہیں۔

اُنکے پاس ایک بڑا تاریخی نشان ہے اور اُنکے دولت کی وجہ سے وہ پھر بھی فی شخص طور پر بہت زیادہ اخراج کرتے ہیں۔

لیکن اُنکے ملکوں کے اخراج اب دوسرے ملکوں سے کم ہو رہے ہیں

کیونکہ دیو جو ہے چین اب آخر میں پہونچ رہا ہے، اور مزید ملکوں جیسے ہندوستان اپنے راہ پر ہیں۔

بہت سارے جرمن لوگ، مثال کیلئے، حیرت ہیں کہ اگر وہ صرف ۲٪ کی اخراج کیلئے ذمہ دار ہیں، تو

اُن کے ذریعہ کم کرنے میں کیا فائدہ ہوگا۔

جواب آسان ہے۔

پہلی بات، سب سے امیر ملکوں کے پاس حوالہ جات، پڑھے لکھے مزدوروں اور ٹیکنالوجی ہے،

جس سے وہ سستا، کم کاربن نشان چھوڑنے والے جوابوں ترقی کر سکتے ہے۔

اگر ہم غریب ملکوں کو ہماری طرح حفری ایندھن پر منحصر نہیں بننا دیکھنا چاہتے ہے،

ہمیں سستا اور دستیاب کم کاربن نشان چھوڑنے والے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔

اور ہم وہاں پہونچ رہے ہیں۔

قابل تجدید کے قیمت جلدی گر رہا ہے اور مختلف جوابوں کی نظر آ رہا ہے، مختلف شعبے کیلئے۔

لیکن، یہ اِس سے بھی جلدی ہونی چاہیے۔

اگر امیر مغربی ملکوں فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ جلد موسمیاتی بدلاؤ کو روکنا ہے،

باقی دنیا اُن کو تعمیل کرنے کی ضرورت پڑے گا، کیونکہ اُن کو کوئی اور راہ نہیں ہے۔

جیسے کہ جب یورپی اتحاد نے ٹیکنالوجی کیلئے موثر توانائی معیارات نافذ کی،

باقی ساری دنیا بھی ایسے ہی کیا، تاکہ وہ بلاک کے ساتھ تجارت کر سکتے تھے۔

پھر بھی، یہ دوسرے لوگوں کو اپنے ذمہ داری سے معاف نہیں کرتا ہے۔

چین آج کے سب سے بڑا کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کرنے والا ملک ہے اور یہ چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی طریقہ سے بڑھتے ہیں کہ

وہ ایک صفر کاربن دنیا بننے میں ممکن ہو سکتے ہیں، سہی وقت پر۔

دوسروں کے کل کے غیر ذمہ دارانہ سلوک، وہی غلطی آج دوبارہ کرنے کیلئے ایک بہانہ نہیں ہے۔

موسمیاتی بدلاؤ ایک عالمی تکلیف مسئلہ ہے اور ایک قوم اکیلا اِسے ٹھیک نہیں کر سکتا ہے۔

ایک جواب پر آنا کہ کون ذمہ دار ہے اُتنا آسان نہیں ہے۔ وہ ایک بیوقوف سوال ہے،

لیکن بین الاقوامی سیاست کو دہائیوں سے دوچار کیا ہے۔

آخر میں، بہت آسان ہے۔

ہر لوگ اپنے بہترین کرنا چاہیے اور ابھی ہم وہ نہیں کر رہے ہیں۔

لیکن ہم آج سے شروعات کر سکتے ہیں۔