کورونا وائرس کی وضاحت اور آپ کو کیا کرنا چاہئے | Kurzgesagt

🎁Amazon Prime 📖Kindle Unlimited 🎧Audible Plus 🎵Amazon Music Unlimited 🌿iHerb 💰Binance

ویڈیو

ٹرانسکرپٹ

دسمبر 2019 میں چینی حکام نے

دنیا کو مطلع کیا کہ ان کی آبادی میں ایک وائرس پھیل رہا ہے۔

اگلے چند مہینوں میں یہ وائرس دوسرے ممالک تک پھیل گیا, کچھ ہی دنوں میں کیسز کی تعداد بھی دوگنی ہو گۂی۔

یے وائرس نظام تنفس (سا نس کا نظام) میں مشکلات سے متعلق “کورونا وائرس” کہلاتہ ہے

جو کوویڈ-19 نامی بیماری کا سبب بنتا ہے، جسکو ہم آسان الفاظ میں کورونا وائرس کہتے ہیں۔

جب ایک انسان کو يہ وباء لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے اور ہم سب کو کیا کرنا چاہئے؟

ایک وائرس دراسل جینیاتی مادے اور کچھ پروٹین کے ارد گرد ایک ڈھانچہ ہے۔ جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک زندہ چیز ہی نہیں ہے۔

یہ اپنی افزائیشِ نسل صرف اس صورت میں کرسکتا ہے کہ یہ کسی زندہ سیل میں داخل ہو جائے،

کرونا مختلف سطحوں کے ذریعے پھیل سکتا ہے ،

لیکن ابھی تک يہ وثوق سے نہيں کہا جاسکتا کہ یہ ان پر کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہے۔

يہ ذيادہ تر بیمار کی کھانسی کے قطروں سے پھيلتہ ہے ، یا اگر آپ کسی بیمار کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھویں,

جیسے اپنی آنکھیں یا ناک رگڑنا

ھر یہاں سے یہ وائیرس اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے پھر یہ جسم کے اندر مذید گہرائی تک دوسری چیزوں کے ساتھ چمٹ کے پہنچ جاتاہے

اب اس کی منزل بڑی آنت، تلی یا پھیپھڑے ہیں جہاں پہنچ کر یہ بہت ہی ڈرامائی اثر دکھا سکتا ہے۔

محض چند کرونا وائرس بھی انسان کے جسم کے اندر بہت بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔

ہمارے پھیپھڑوں کی دیوار پر کھرب ہا کی تعداد میں ایک خاص قسم کے سیلز ہوتے ہیں جن کو اپی تھیمیل سیل کہتے ہیں

یہ آپ کے جسم کے سرحدی خلیات ہیں۔ جو آپ کے اعضاء اور میوکوسا کی باہری سطہ پر پایے جاتے ہيں اور آسانی سے انفیکٹ ہو سکتے ہيں۔

کرونا وائیرس مریض کے ان سیلوں میں سے ایک خاص حصے کے ساتھ جا کر جُڑ جاتا ہے اور اپنا جینیٹیک مواد اس میں داخل کردیتا ہے۔

سیل اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور اس جینیٹیک احکامات پر عمل شروع کردیتا ہے یہ احکات بہت ہی سادہ سے ہوتے ہیں کہ

اس کی کاپی بناؤ اور خود کو دوبارہ اکٹھا کرلو

اب یہ سیل آنے والے اصل وائیرس کی بہت ساری کاپیاں بناتا ہے تاوقتیکہ یہ ایک خاص تعداد تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر اس کو ایک آخری حُکم ملتا ہے کہ

سیل تم اب خود کُشی کرلو۔

اس حُکم کو سیل بجا لاتا ہے اور ایک طرح سے پگھل سا جاتا ہے اور اب یہ نئے کرونا کے ذرات کو آزاد کردیتا ہے جو اب تیار ہیں دوسرے سیلوں پر حملہ کرنے کے لئے

اور یوں متائثرہ سیلوں کی تعداد میں بہت جلد بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے

کوئی دس روز بعد جسم کے لاکھوں سیل اس سے مُتائثر ہوتے ہیں اور کھربوں کی تعداد میں کرونا وائیرس اب پھیپھڑوں پر حملہ کردیتے ہیں

لیکن ابھی تک وائیرس نے کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچایا ہے لیکن کرونا اب ایک حقیقی بلا کو آپ پر چھوڑنے والا ہے جو آپ کے جسم میں ایک آفت لے آئیگا

یہ بلا ہے آپ کا اپنا مدافعتی نظام ہے۔

آپ کا مدافعتی نظام آپ کا محافظ تو ہوتا ہی ہے لیکن یہ آپ کے لئے بیحد خطرناک بھی ہوسکتا ہے جس کے لئے اس کو سخت طور پر کنٹرول میں رہنا ضروری ہوتا ہے،

اب آپ کا مدافعتی نظام جونہی یہ حملہ دیکھتا ہے تو یہ پھیُھڑوں پر مدافعتی سیل برسانا شروع کردیتا ہے۔ اب کرونا وائیرس ان میں سے چند ایک پر اپنا اثر ڈال کے انفیکٹ کرتا ہے جس سے شدید کنفیوژن پیدا ہوجاتی ہے

خلیوں کے نہ کان ہوتے ہیں نہ آنکھیں۔

یہ انفرمیشن پہنچانے کے لئے چھوٹی چھوٹی سے پروٹین کا استعمال کرتے ہیں جن کو سائیٹو کائین کہا جاتا ہے۔

تقریبا ہر مدافعتی عمل ان کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔

کرونا مُتائثرہ مدافعتی نظام کے سیلوں کو اپنا ردِ عمل بڑھانے پر مجبور کردیتا ہے اور مدافعتی نظام سمجھتا ہے کہ یلغار ہوگئی

یوں ایک طرح سے یہ مدافعتی نظام کو زور و شور سے لڑائی پر ابھارتا ہے۔ جس کی وجہ سے مدافعتی نظام ایک طرح سے ضرورت سے زیادہ سپاہی بھیج دیتا ہے جس سے اس کے وسائیل ضائیع ہوجاتے ہیں اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔

پر دو خلیے خاص طور تباہی کا سبب بنتے ہیں

پہلے نیٹروفائیل؛ جن کی خصوصیت خلیوں کو مارنا ہے جس میں ہمارے جسمانی خلیے بھی شامل ہیں۔

جب یہ ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں تو دھڑا دھڑ انزائیموں کو چھورڑتے ہیں جو بلا تمیز دشمن اور دوست خلیوں کو مارتے ہیں۔

تباہی کا دوسرا بڑا سبب “ٹی سیل” ہوتے ہیں ، جو عام طور پر متاثرہ خلیوں کو کنٹرول قسم کی خودکشی کا حکم دیتے ہیں۔

لیکن اس حملے کی وجہ سے یہ کنفوژ ہوچُکے ہوتے ہیں اور یوں یہ صحت مند سیلوں کو بھی اس خُود کُشی کا کہنا شروع کردیتے ہیں۔

جتنے زیادہ مدافعتی خلیات پہنچتے ہیں ، اتنا ہی زیادہ نقصان ہوتا ہے اور اتنے ہی زیادہ پھیپھڑوں کے صحت مند ٹشو مرتے ہیں۔

صورتحال اتنی خراب ہوسکتی ہے کہ اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ جو تاحیات معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

زیادہ تر کیسز میں قوت مدافعت کا نظام آہستہ آہستہ دوبارہ کنٹرول حاصل کرتا ہے۔

یہ متاثرہ (انفکٹڈ) خلیوں کو مارتا ہے۔ نئے وائرسوں کو روکتا اور میدان جنگ کو صاف کرتا ہے۔

صحت يابی ‎شروع ہوتی ہے

کورونا سے متاثر زیادہ تر افراد پر نسبتا ہلکی علامات ظاہر ہونگی۔

لیکن بہت سے معاملات سنگین یا اس سے بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔

ہم سنگین یا غیرسنگین کیسز کی نسبت کا درست اندازہ اس لیے نہیں لگا سکتے کیونکہ ابھی تک کورونا کے تمام کیسز کی شناخت نہیں ہوپائی

لیکن یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کورونا کے کیسز عام نزلے سے ذیادہ ہیں ۔ زیادہ سنگین کیسزمیں

لاکھوں ایپی تھیلیل خلیے مر جاتے ہیں اور ان کے ساتھ پھیپھڑوں کی حفاظتی چادر ختم ہوجاتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ایلوئیولائی(چھوٹے ہوا کے تھیلے) جس کے ذریعے سانس لیا جاتا ہے۔ ان بیکٹیریا سے متاثر (انفکٹ) ہوسکتے ہیں جو عام طور پر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔

مریضوں کو نمونیا ہو جاتا ہے۔

سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے یا بلکل ہی نہیں آتا اور مریضوں کو زندہ رہنے کے لئے وینٹیلیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔

مدافعتی نظام نے ہفتوں سے پوری صلاحیت سے لڑا ہے اور لاکھوں اینٹی وائرل ہتھیار بنائے ہیں۔

اور جیسے جیسے ہزاروں بیکٹیریا تیزی سے بڑھتے ہیں تو اب مدافعتی نظام کے لئے یہ بہت دیر ہوچُکی ہوتی ہے

وہ خون میں داخل ہوتے ہیں اور جسم پر قابو پاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ، موت کا بہت امکان ہے۔

کورونا وائرس کا اکثر موازنہ فلو سے کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ زیادہ خطرناک ہے۔

اگرچہ وباء کے ابتدائی مرحلے میں موت کی صحیح شرح کا حساب کرنا مشکل ہے

ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ یہ فلو سے بہت زیادہ متعدی بیماری ہے اور زیادہ تیزی سے بھی پھیلتی ہے۔

کورونا جیسی وبائی بیماری کے لئے دو مستقبل ہیں : تیز اور سست۔

کون سا مستقبل ہم دیکھیں گے اس پر منحصر ہے کہ وباء کے ابتدائی دنوں میں ہم سب اس پر کس طرح کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔

ایک تیز پھیلتی وباء خوفناک ہوگی اور بہت سی جانوں کا ضیاع ہوگا۔

جبکہ ایک سست پھیلتی وباء کا تاریخ میں کوئی نام و نشاں نہیں ہوگا۔

تیز پھیلتی وباء کی بدترین صورتحال انفیکشن کا بہت تیزی سے پھیلنا ہے

کیونکہ اس کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہیں۔

یہ اتنا برا کیوں ہے؟

تیز پھیلتی وبائی بیماری میں بہت سے لوگ بیک وقت بیمار ہوجاتے ہیں۔

اگر تعداد بہت زیادہ ہوجاتی ہے تو نظام صحت اس کو سنبھالنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔

طبی عملہ یا وینٹیلیٹر جیسے محدود وسائل کی وجہ سے ہر ایک کی مدد نہیں کی جاسکتی۔

لوگ بے علاج مرجائیں گے۔

اور چونکہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن خود بھی بیمار ہوجاتے ہیں۔ نظام صحت کی صلاحیت اور بھی گھٹ جاتی ہے۔

اگر یہ وقت آگیا تو پھر بھیانک فیصلے کرنے پڑیں گے کہ کون زندہ رہتا ہے اور کون نہیں۔

ایسی صورتحال میں اموات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

اس سے بچنے کے لیے ساری دنیا کو اس وبا کے پھیلاو کو کم کرنے کے لئے جو کچھ ہوسکتا ہے کرنا پڑے گا۔

ایک وبا کے پھیلاو کو درست اقدامات سے ہی کم کیا جاتا ہے۔

خاص طور پر ابتدائی مرحلے میں ، تاکہ جو بھی بیمار ہوجائے وہ علاج کروا سکے اور ہسپتالوں میں بلاوجہ کی بھیڑ اور بگدڑ نہ ہو۔

چونکہ ہمارے پاس کرونا کے لئے ویکسین نہیں ہے ، لہذا ہمیں معاشرتی طور پر اپنے طرز عمل کو بدلنا پڑے گا۔

ہم سب کو ایک سماجی ویکسین کی طرح کام کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب دو چیزیں ہیں۔

  1. متاثر(انفکٹ) نہیں ہونا اور 2. دوسروں کو متاثر (انفکٹ) نہیں کرنا۔

اگرچہ یہ معمولی سی بات ہے۔ ایک بہترین چیز جو آپ کرسکتے ہیں وہ یہ کہ صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھونا۔

صابن دراصل ایک طاقتور ٹول ہے۔

کورونا وائرس کی بیرونی سطح بنیادی طور پر چربی ہے۔

صابن اس چربی کی تہہ کو توڑ دیتا ہے اور یہ آپ کو متاثر نہیں کر سکتا۔

یہ آپ کے ہاتھوں پر پھسلن بھی بنادیتا ہے ، اور دھونے کی حرکات کے ساتھ وائرس بھی بہہ ہو جاتا ہے۔

اپنے ہاتھوں کو ایسے دھونا چاہیے جیسے کہ ابھی آپ کچھ مرچیں کاٹ کر آئے ہیں اور اپنے کانٹیکٹ لینز لگانا چاہتے ہیں۔

اگلی چیز سماجی فاصلہ ہے جو کوئی زیادہ اچھا تجربہ تو نہیں ہے۔

لیکن ایک اچھی چیز ہے۔ اس کا مطلب ہے: گلے ملنا اور مصافحہ سے گریز کیا جائے۔

اگر آپ گھر پر رہ سکتے ہیں تو ، ان لوگوں کی حفاظت کے لئے گھر پر قیام کریں جنہیں معاشرے کے کام کرنے کے لئے باہر رہنے کی ضرورت ہے:

ڈاکٹروں سے لے کر دکاندار اور پولیس افسروں تک، سب بیماری سے بچنے کے لیےہم پر انحصار کرتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر لوگوں کو الگ تھلگ رکھے جانے کا انتظام ہے جس کے مُختلف معنی ہو سکتے ہیں جیسے کہ سفر کرنے پر پابندیاں یا گھر رہنے کے احکامات، اس کو کوارنٹین کہتے ہیں۔

علیحدگی ایک اچھا تجربہ نہیں ہے اورغیر مقبول بھی ہے۔

لیکن یہ دواؤں اور ویکسی نیشن پر کام کرنے والوں کو مزید مہلت دیتا ہے۔

لہذا اگر آپ کو کوارنٹین میں ڈالا جاتا ہے تو آپ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ سب کے بھلے کی بات ہے۔

ان میں سے کچھ بھی آرام دہ نہیں ہے لیکن اگر آپ ذرا ایک بڑے پیمانے پر سوچیں تو معاشرے کے لئے یہ کوئی بہت مہنگا سودا بھی نہیں ہے۔

وبا کے خاتمے کا انحصار اس کی شروعات سے ہوتا ہیں۔

اگر یہ تیزی سے پھیلے تو، برا انجام ہوتا ہے۔

اگر یہ آہستہ آہستہ شروع ہو تو انجام ٹھیک ہی ہوتا ہے۔

اس دور میں سب کچھ ہم سب کے ہاتھ میں ہے۔

لفظی اور

علامتی طور پر۔

ماہرین کا بہت بڑا شکریہ جنہوں نے اس ویڈیو کے ذریعے مختصر نوٹس پر ہماری مدد کی ،

خاص طور پر" ہماری دنیا میں ڈیٹا" ،

آن لائن اشاعت تحقیق اور ڈیٹا کے لئے دنیا کے سب سے بڑے مسائل پر

اور ان کو حل کرنے میں پیشرفت کیسے کریں۔

ان کی سائٹ چیک کریں۔ اس میں کورونا وبائی مرض کا ایک مستقل تازہ کاری شدہ صفحہ بھی شامل ہے

[موسیقی]